فاٹا اور قبائلی علاقے میں دہشت گردی کے محرکات اور ان کا ممکنہ حل
دیہاتی علاقوں یا قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی محرکات ایک عام مسئلہ ہیں جو دنیا بھر میں اجتناب نہیں کر سکتے۔ یہ مسئلہ مختلف وجوہات کی بنا پر پیدا ہوسکتا ہے جو قومی، سیاسی، معاشی یا عدلی ہوسکتی ہیں۔ یہ مقالہ دہشت گردی کی محرکات پر تفصیلی بحث پیش کرتا ہے اور اس پر مختلف نقطہ نظر بیان کرتا ہے۔
ایک ممکنہ محرک قومی یا عرصہ وسطی تشدد ہوسکتا ہے جب کسی علاقے کی قومی یا تاریخی تنظیم کے ارکان یا افراد، خارجی دولتوں، جیشوں یا دیگر ایجنسیوں کی حمایت یا منظوری تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سیاسی محرکات بھی دہشت گردی کی منظوری کے لئے ظاہر ہوسکتےہیے،
دہشت گردی ایک جدید مسئلہ ہے جو تمام دنیا میں امن و آشتی کو تباہ کر رہا ہے۔ یہ معاملہ خصوصاً قبائلی اضلاع میں بہت حاد ہوتا ہے جہاں سنسنی سے بھری تصویریں نوجوانوں کو جہاں گرا ہے اور اس کی معاشی بحران موجود ہے۔
دہشت گردی کی محرکات قبائلی اضلاع میں مختلف ہو سکتی ہیں، جن میں تعلیم کی کمی، استحکام کے کم ہونے، مذہبی تنازعات، سیاسی انتشار، اقتصادی بحران اور ناامنی کے منصوبوں کی غلط استعمال شامل ہوسکتے ہیں۔
دہشت گردی کی محرکات عموماً مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہیں جن میں ملی بات چیت کی ناکامی، اقتصادی بحران، نا حکمت عملی، خلافتی نظام، بریڈگ کلچر، اجتماعی فرقے بندی، ایکسٹریمسٹ تنظیموں کی فعالیتیں، ریاستیاتی تصمیمات کا عوام پر برا اثر، تعلیمی نظام کی جانبداری، ناصواب گول گپٹ، فسادی عناصر کا دھچکا اور دوسرے عام امور شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل باہمی تعلق بنا سکتے ہیں اور کسی مختلف قبائل کی عدم توافق پر منحصر ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہشت گردی اور اس سے متعلق عالمی معاہدوں کی بحث جتنی پرانی ہے اتنی ہی متنازعہ ہے-
اقوام متحدہ ہو آسیان یا سارک دہشت گردی کے پروٹوکول ہمیشہ ہی ان فورم پر اختلافات پیدا کرتا ہے-
یہ معاملہ کتنا حساس اور نازک ہے اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے لے کر اب تک اقوام متحدہ میں بھی اس مسئلے پر مکمل اتفاق نہیں ہو سکا-
اصل میں سارا جھگڑا دہشت گردی کی تعریف کا ہے-
اگر انفرادی یا تنظیمی کسی بھی سطح پر ہر قسم کے تشدد کو دہشت گردی کی تعریف میں شامل کر لیا جائے تو پھر دنیا کے مختلف حصوں میں جاری اُن تحریکوں یا آزادی یا اپنے حقوق کے لئے کی جانے والی جدوجہد کا کیا جائے؟
کیا انہیں دہشت گردی کی تحریکیں کہا جائے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اپنے حقوق کے لئے لڑائی کرنے کو کیا کہا جائے گا؟ آخر کسی کا دہشت گرد کسی اور کا مجاہد بھی تو ہو سکتا ہے-
یہی نکتہ دہشت گردی پر عالمی معاہدوں پر ہونے والی بحث کا مرکز ہے-
امریکہ اور یورپ کا اصرار ہے کہ ’کسی بھی فرد یا گروپ کی طرف سے سویلین ٹارگٹس کو نشانہ بنانا‘دہشت گردی کی تعریف کا حصہ ہونا چاہئے لیکن پھر افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مثال کے طور پر انگولا کے ان باغیوں کے بارے میں کیا کہا جائے جنہوں نے مسلح اور پرتشدد جدوجہد کی لیکن انہیں امریکہ کی حمایت حاصل تھی یا پھر برطانیہ کی?
سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے اس بیان کا کیا کریں گے کہ جس میں انہوں نے جنوبی افریقہ کے مشہور رہنما نیلسن منڈیلا کی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا-
اسلامی ممالک کا بھی یہی اصرار ہے دہشت گردی کی تعریف میں تشدد اور آزادی کی تحریکوں میں تفریق ضروری ہے- پاکستان بھی ابھی تک یہی موقف دہراتا رہا ہے لیکن سارک کے حالیہ اجلاس میں اضافی پروٹوکول پر دستخط کرنا یقیناٌ پاکستان کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی ہے اور دیکھا جائے توامریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے دنیا کے زیادہ تر عالمی ادارے دہشت گردی پر اپنی پالیسیاں تبدیل کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں-
دہشت گردی (Terrorism) کو عموماً تشدد، خوف و دہشت کا ایک منظم روپ کہا جاتا ہے جس کا مقصد عام طور پر سیاسی، مذہبی یا اقتصادی منافع کو حاصل کرنا ہوتا ہے. دہشت گردی وقت کے ساتھ اہداف اور تکنیکوں میں تبدیلیاں کر سکتی ہے، لیکن ظاہری طور پر یہ اپنی عمدگی کو نمایاں کرنے کیلئے خوفناک اقدامات کو استعمال کرتی ہے جن کا مقصد عموماً سوسائٹی، قومی یا بین الاقوامی کنٹرول کو متاثر کرنا ہوتا ہے.
دہشت گردوں کا استعمال ہتھیار، بم، دھماکے، اغتصاب، ہتھیاروں کی خرید و فروخت، حملوں، قتل، دھمکی، بھگاوٹ، ربا، لوٹ، زبردستی اعتصاب، انتحاری حملے وغیرہ جیسے طریقوں سے کیا جاتا ہے.
دہشت گردی عمل یا حملوں کو نتیجتاً ایک ٹریرسٹیک یا دہشت گرد نظام کے کالم بنایا جاتا ہے. اس نظام میں، عموماً گروہ یا فرد سے لگانے کے لئے مشنری اور قائد اپنی فکری اصول، سیاسی نمونے یا مذہبی منصوبہ بندیوں کا استعمال کرتا ہے. دہشت گردی عمل بڑے پیمانے پر ہو سکتا ہے جہاں اس کا نشانہ ایک دیسی یا بین الاقوامی حکومت یا عوامی ادارے ہو سکتے ہیں.
دہشت گردی (Terrorism) ایک مذموم عمل ہے جس کے بارے میں پیش رفت کئی معلومات ہیں. یہاں کچھ اہم معلومات درج کی جا رہی ہیں:
1. تعریف: دہشت گردی کو عموماً سوسائٹی، سیاسی یا مذہبی منافع کو حاصل کرنے کے لئے خوف و دہشت کی تشدد پر مشتمل عمل کہا جاتا ہے.
2. ہدف: دہشت گردی کے عمل کا مقصد عموماً ایک سیاسی یا مذہبی طرز زندگی کو تحقیق کرنا، حکومتی عدل و انصاف کو متاثر کرنا، عوامی خیالات کو دھچکا دینا، ڈیموکریسی کو بحران کا شکار کرنا، یا ایک نفری فرقہ کی منظری منصوبہ بندی کو پھیلانا ہوتا ہے.
3. تکنیک: دہشت گردوں کے استعمال کے لئے مختلف تکنیک استعمال کی جاتی ہیں جن میں بم دھماکے، حملے، لشکری حملے، اغتصاب، رہزنی، تشدد کی دھمکیاں، سرکاری اور خصوصی دفاتر کا نقصان پہنچانا شامل ہوتا ہے.
4. دہشت گردان تنظیمیں: دہشت گردوں کے دستے عموماً تنظیمیں ہوتی ہیں جن میں انتخاب شدہ افراد مذموم دہشت گردی حملوں، تشدد کی دھمکیاں، انتحاری حملوں وغیرہ کو منصوبہ بندی اور تنظیم بندی کرتے ہیں.
5. قوانین: دہشت گردی کے خلاف کئی قوانین موجود ہیں جو دہشت گردی عمل کو ممنوع قرار دیتے ہیں اور ملکوں کو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے کانونی اقدامات کرنے کیلئے جنگجوئوں کو سبسڈائز کرتے ہیں.
6. بین الاقوامی تعاون: دہشت گردی کو روکنے اور متاثرہ ممالک کو حفظ کرنے کیلئے مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں مل کر کام کرتی ہیں. ان کے درجہ بندی، نفوذ قانون، استعداد و تنظیم کو مضبوط بنانے کیلئے تعاون کرا جاتا ہے.
دہشت گردی ایک بے رحمانہ اور غیر انسانی عمل ہے جو امن و امان کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے خلاف لڑائی اور تحفظ امن امان کے لئے تعاون کرنا ضروری ہے.
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس نے دنیا بھر میں قبائلی اضلاع میں بھی اپنی دستک داریاں پیدا کی ہیں۔ یہ قومی اور عالمی سطح پر ایک بڑا کواٹربنڈی کا باعث ہے، جو منافع کی تقسیم اور معاشی تشدد کا سبب بنتا ہے۔ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کی محرکات کافی عمومیت پذیر ہوتی ہیں جو بھٹو ڈویلوپمنٹ اسکال کی کمی، نفاست میں کمی، خاندانی حکومتوں کی طاقت کا استعمال، نسلی تعصب اور سیاسی تقاضوں کے جذبے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
فاٹا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے محرکات کئی مختلف عوامل ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ، درج ذیل کچھ عوامل اہم ہیں:
1. سیاسی تنازعات: فاٹا اور قبائلی علاقوں میں کئی سالوں سے سیاسی تنازعات رائج ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی یا حکومتی مسئلوں پر ہم آہنگی نہ ہونا ممکن ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد عناصر موجود محلوں کو استعمال کر کے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
2. اقتصادی مسئلے: فاٹا اور قبائلی علاقوں کی معیشت کشادہ نہیں ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ درجہ حاضر کئی عائلات ہیں جو ذاتی تحاریر کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر دیہاتوں میں منتقل ہوچکی ہیں۔ اقتصادی مسائل بنیادی طور پر فقر، بے روزگاری اور سرمایہ کاری کی کمی پر مبنی ہیں جو دہشت گردی کی محرکات کے لئے خاص طور پر بات کریںگے۔
3. قبیلی روابط: قبائلی تنازعات اور راگڑ پٹان ایک مسئلہ ہوسکتے ہیں جو دہشت گردی کو بڑھا سکتے ہیں۔ مختلف قبائل کے درمیان شدید مذاکرات، خونریزی اور قبائلی لڑائیاں ہوتی ہیں جس میں دہشت گرد عناصر کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
4. داخلی تشدد: سیاسی اور مذہبی تنازعات کے علاوہ ، فاٹا اور قبائلی علاقوں میں داخلی تشدد بھی دہشت گردی کا محرک بن سکتی ہیں۔ مثلاً جنگ ، خاندانی نزاع ، کرپشن اور اذیت گری اصل وجوہات ہوسکتی ہیں جو لوگوں کو تشدد کا راستہ منتقل کر سکتی ہیں۔
5. مذہبی انتہا پسندی: فاٹا اور قبائلی علاقوں میں مذہبی انتہا پسندی اہم رویہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ دہشت گرد عناصر اس نوع کے رویوں کو استغلال کرکے اپنے غیرمعاشرتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی عقائد کو موقع بنا کر، وہ اپنے آپ کو مذہب کے ناظمین اور مجاہدین کے نام سے پیش کر سکتے ہیں
6. سیاسی تشدد: قبائلی علاقوں میں سیاسی تشدد بہت بڑا عامل ہو سکتا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے. مختلف سیاسی مجموعوں کے زیراہتمام ریاستوں کا حصول یا سیاسی اختلافات میں دہشت گردی کا اِستعمال اِس طرح کے حوادث کی وجہ بن سکتا ہے.
7. مسلح جماعتوں کی موجودگی: قبائلی علاقوں میں مسلح جماعتوں کی موجودگی بھی دہشت گردی کا ایک عامل ہو سکتی ہے. یہ جماعتیں اپنی حقوق کے حصول یا دوسری قبائل کے ساتھ تنازعات میں دہشت گردی کرتی ہیں.
8. تعلیمی نااہلی: اعلیٰ تعلیم یا اشد تنقیدی تعلیم کے عدم موجودگی قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے. علم و تعلیم کی کمی سے لوگوں کو انتہائی ناجائز عملوں میں مبتلا کرتی ہے.
9. نسلی اختلافات: قبائلی علاقوں میں گرفتاری کے علاوہ نسلی اختلافات بھی دہشت گردی کا عامل ہو سکتے ہیں. اگر ایک قبیلہ دوسرے قبائل سے مذموم احساس کرتا ہے، تو وہ اُن پہلوانوں کو تعصب میں دہشت گردی کے ایراد میں لے لیتا ہے.
10. اقتصادی مسائل: اقتصادی مسائل بھی دہشت گردی کا ایک عامل ہو سکتے ہیں. مشکلات اچھے روزگار، فقیری، بےروزگاری، یا عام طور پر معیشتی پیشہ ورانہ کاموں کے عدم موجودگی قبائلی علاقوں میں غضب اور تشدد کے عامل بن سکتی ہیں جو دہشت گردی کو پیدا کرتی ہیں.
11. مذہبی تنازعات: مذہبی تنازعات بھی دہشت گردی کو بڑھا سکتی ہیں. مختلف فرقہ وارانہ تنازعات، مذہبی تشدد، یا سماجی اصلاحات کے عدم موجودگی قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا ایک محور بن سکتے ہیں.
امن کا حصول قبائلی علاقے میں اہم اور ضروری ہے۔ امن کو حاصل کرنے کے لئے درج ذیل کچھ اقدامات اصولی ہیں:
1. اقدامات برائے صلح کی مذہبی تعلیم:
مذہبی رهبران اور علماء کو خواہشمند کیا جا سکتا ہے کہ قبائلی چوکسیاں منظم کریں، آواز آوری کریں اور تعلیمات دیں جو امن اور راحت کے لئے ضروری ہوں۔
2. سماجی تفہیم کا فروغ:
قبائلی رکنوں کو تربیت دینیں کہ امن آپسی تعامل اور تعاون پر مشتمل ہوتا ہے۔ علاقے میں سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے، لوگوں کو کہا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور آپس میں دلچسپی رکھیں۔
3. قبائلی اداروں کی تشکیل:
قبائلوں میں اداروں کو قائم کیا جاسکتا ہے جن کا مقصد مسائل اور تنازعات کے حل کرنا، رابطے کو بہتر بنانا، امن کے منصوبوں کو تشکیل دینا اور خلاف ورزیوں کو حل کرنا ہو۔
4. مذاکرات اور مصالحت کی ترویج:
قبائلی رہنماؤں کو مذاکرات اور مصالحت کی روشنی میں تربیت دیں تاکہ مسائل اور تنازعات کو امنوراحت کے ذریعے حل کیا جاسکے۔ مذاکرات کو ترویج کرنیوالی آرائشوں کو تحفظ دیا جانا چاہئے۔
5. شعور کی ترقی اور علمی تعلیم:
عمومی تعلیم کو ترویج کریں کیونکہ علم سے واقعی طور پر آدمیوں کا سمجھنا اور جذبات کے ساتھ سمجھوتا، جہالت اور تشدد کو کم کروتا ہے۔ علاقے میں تعلیم میں سرمایہ درآمد کے مواقع کو بڑھائیں تاکہ لوگ محنت کرتے ہوئے بہتر معیشت حاصل کر سکیں۔
6. قانون اور نظام کی حفاظت:
احترام، تسلیم و تقدیر کے ساتھ عدالتوں کو فوری ترقی دیں تاکہ نافرمانیوں کو روکا جا سکے اور نامناسب رویوں کو سزا دی جا سکے۔
7. شفاف عدالتی نظام کی ترویج:
اصولی ایکسٹرنل ہسپتالز، پولیس اور دیگر تنظیموں کو تربیت دیں تاکہ جمع بندیاں، حقوق کا برتنا اور مجازات کے مختلف اقدامات کو بہتر طور پر تشکیل دیا جا سکے
8. سیاسی جماعتوں کے بیٹھکوں کا منصوبہ بندی: قبائلی لیڈرز کو سیاسی جماعتوں کے بیٹھکوں میں شامل کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کے حلقے کی مسائل کو پیش کرنے اور حل کرنے کا موقع مل سکے۔
9. پولیس اور فوج کی شمولیت: قبائلی علاقوں میں پولیس اور فوج کو قبائلی لیڈرز کے ساتھ مشترکہ کام کرنا چاہیے تاکہ علاقے میں قانون و نظم کی حفاظت ہو سکے اور خلاف ورزیوں کو عدالتوں میں پیش کیا جا سکے۔
10. تعلیم و تربیت کا اہتمام: قبائلی علاقوں میں تعلیم و تربیت کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو ان علاقوں میں مدارس، کالجوں، یونیورسٹیوں کی بناوٹیں کرنی چاہیے تاکہ علاقے کے نوجوانوں کو علم و عمل کے صحیح سلسلے کے تحت تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔
11. تشریعات کی تحسین: علاقے میں موجود قبائلی تشریعات کو قومی تشریعات سے ملتوی کرنا لازمی ہوتا ہے۔ حکومت کو علاقے کے قبائلی لیڈرز کے ساتھ بیٹھ کر تشریعی تنظیموں کے تحسین کا موضوع پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
12. سطح معیشت کی تحسین: علاقے کی معیشت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو علاقے میں مزید روزگار کے مواقع، ترقی پسند منصوبوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے حوالے سے قبائلی لیڈرز کے ساتھ مشورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
علاقے میں امن کیسے آئے گا اسکے لئے سب سے اہم چیز ہے کہ حکومت اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کے درمیان یکسان احترام کا تعلق بنایا جائے اور ان کے مسائل کو شناخت کیا جائے تاکہ ان کا حل ممکن ہو سکے۔۔
واللہ اعلم باصواب
Comments
Post a Comment